مولانا ابوالکلام آزاد کا خاندان اور بعض اہم معلومات

مولا نا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی وِلادت جس گھرانے میں ہوئی وہ گھرانہ عِلم و عمل کے اعتبار سے ایک مشہورگھرانہ تھا، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے اپنے خاندان کی عِلمیت اور جاہ و مرتبے کے بارے میں اپنی اہم کتاب “تذکرہ” میں لکھا ہے کہ:
میرے خاندان میں تین مختلف خاندان جمع ہوۓ ہیں، تینوں خاندان ہندوستان اور حجاز(سعودی عرب)کے ممتاز بُیوتِ عِلم و فضل اور اصحابِ اِرشاد و ہدایت میں سے ہیں، اُن میں سے اگرچہ کسی نے دنیاوی عزّت و جاہ کی خواہش نہیں کی، لیکن دنیا نے اپنی عزتوں اور شوکتوں کو ہمیشہ اُن کے سامنے پیش کیا، اُنھوں نے کبھی قبول کیا اور کبھی رَد کر دیا
مولانا ابوالکلام آزاد کے اَسلاف مُغَل بادشاہ بابر کے عہد(1530-1526)میں افغانستان کے شہر ہَرات سے ہجرت کر کے ہندوستان آۓ، اُن دنوں ہندوستان کی راجدھانی آگرہ تھی، اِس لیے شروع شروع میں اُنھوں نے آگرہ ہی کو اپنا مَسکَن بنایا لیکن بعد کے دنوں میں یہ خاندان دہلی منتقل ہو گیا
مولانا ابوالکلام آزاد کے اَسلاف میں شیخ جمال الدین ایک بڑی شخصیت تھی، وہ بہلول دہلوی کے نام سے مشہور تھے، وہ اکبر کے زمانہ میں ممتاز علماء میں شمار کیے جاتے تھے، حق گوئی اور بیباکی اُن کی خصوصیات تھیں، اکبر کے خاندان سے اُن کی بڑی قربت تھی، لیکن جب شاہی دربار کی مذہبی حالت خراب ہونے لگی تو مولانا جمال الدین ہندوستان سے ہجرت کر کے مکّہ مکرّمہ چلے گئے، مولانا آزاد کے سلسلۂ نسب میں ایک اور عِلمی شخصیت شیخ محمد کی تھی، یہ مولانا جمال الدین کے بیٹے تھے، شیخ محمد کا تذکرہ بادشاہ جہاں گیر نے اپنی کتاب “تُزکِ جہاں” میں بڑے عزت و احترام سے کیا ہے
مولانا آزاد کے والد کے نانا کا نام مولانا منوّرالدین تھا، جن کا تعلق لاہور کے قصور سے تھا، اُن کی ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی، شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی کے فضل و کمال کی شہرت سن کر وہ لاہور سے دہلی آ گئے اور اُن کے درس میں شامل ہو گئے، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے شاگردوں میں اُنھیں بہت عزیز رکھتے تھے، بعد میں وہ لاہور گئے اور گھر والوں کے ساتھ دہلی آ گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی، مولانا منورالدین کو مغلیہ سلطنت میں رُکن المدرّسین ہونے کا شرف حاصل تھا
ہندوستان میں 1857ء کے بعد مسلمانوں کی حالت مزید خراب ہونے لگی تھی، اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مولانا منورالدین نے حجاز کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا، اِس سفر میں اُن کے ہمراہ مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدین کے علاوہ علماء و معتقدین بھی تھے، ممبئی سے روانگی تھی، لیکن ممبئی میں ہی مولانا منوّرالدین کا انتقال ہو گیا، اُن کے انتقال کے بعد مولانا خیرالدین نے تنہا مکّہ مکرّمہ کا سفر کیا
مولانا خیرالدین کی تعلیم و تربیت سعودی عرب میں اُس زمانے کے مستند علماۓ کرام کی نگرانی میں ہوئی تھی، تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنھوں نے حرم شریف میں اپنا حلقۂ درس قائم کر لیا اور بیعت و اِرشاد کا سلسلہ بھی جاری ہو گیا، اُنھوں نے مختلف ممالک کے سفر بھی کیے، مولانا خیرالدین مسلک کے اعتبار سے اہلِ حدیث/وہابیت کے سخت خلاف تھے، اِس کی رَد میں اُنھوں نے بعض رسائل و کُتُب بھی تالیف کیں، جامعہ ازہر مِصر کے علماۓ کرام سے مناظرے بھی کیے، سلطان ترکی نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کے نتیجے میں اُنھیں تمغۂ حیدری سے نوازا
مولانا خیرالدین کی شادی مکّہ مکرمہ میں ہوئی، شیخ ظاہر وتری مصر کے بہت بڑے عالمِ دین تھے، اُن کی بھانجی بی بی زینب تھی، اُن ہی سے مولانا خیرالدین کی شادی ہوئی، یہی خاتون مولانا ابوالکلام آزاد کی والدہ محترمہ ہیں، بی بی زینب مراکش کے ایک بہت بڑے علم و فضل والے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، اُن کے بزرگ ہجرت کر کے مدینہ منوّرہ میں آ کر بس گئے تھے، بی بی زینب کے یہاں پانچ اولاد پیدا ہوئیں، تین بیٹیاں اور دو بیٹے، مولانا ابوالکلام آزاد اپنی بہنوں اور اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے
مولانا ابوالکلام آزاد بہنوں اور بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، خانۂ کعبہ سے چند میٹر کی دوری پر اُن کی ولادت با سعادت ہوئی، مکّہ مکرّمہ سے ہندوستان آۓ، گھر میں پِیری اور مُریدی کا رواج تھا، لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی فِکر سے پِیری اور مُریدی کے راستے کو چھوڑ کر مسلکِ صحابہ کے راستے کو اختیار کیا، آزاد تخلّص اختیار کیا، زندگی بھر آزاد رہے، اُنھیں نہ تو کوئی ڈرا سکا اور نہ ہی اُنھیں کوئی جُھکا سکا، خاندان سے حق گوئی اور بیباکی جو اُنھیں وِراثت میں ملی تھی، وہی حق گوئی اور بیباکی مولانا ابوالکلام آزاد کے یہاں بھی زندگی بھر باقی رہی.
نوٹ: اِن تمام اہم معلومات کو میں نے اپنی ایم۔ فل کے مقالے سے اور بعض جملے اپنی طرف سے لکھ کر مضمون کی شکل میں آپ حضرات کی خدمت میں عِلمی اِستفادے کے لیے پیش کیا