टॉप न्यूज़

اسلامک سینٹرکے صدر کے عہدے پر سلمان خورشید کا انتخاب پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

سینئر ماہرین قانون، سابق وزیر خارجہ مصنف اورسینئر سیاست داں سلمان خورشید انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ انہیں 1662ووٹوں میں سے 721ووٹ ملے ۔ مکمل اکثریت حاصل کرکے سلمان خورشید نے ایک سنگ میل قائم کردیا۔ یہ تو متوقع ہی تھا، کیونکہ ان کے مقابلے کا کوئی امیدوار ا ن کی شخصیت کے سامنے ٹک نہیں پا یا مگر کیا دہلی کے لٹین زون میں قائم انڈیا اسلامک کلچرل سینٹرمیں سیاست اور فرقہ واریت کا ماحول بڑھتا جارہا ہے۔ نئے مینجمنٹ میں محمد فرقان 396ووٹ حاصل کرکے نائب صدر بنے وہ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر اور میئر رہ چکے۔ بورڈ آف ٹرسٹیز میں سراج الدین قریشی ، ایس ایم خان، ڈاکٹر خواجہ شاہد، قمر احمد، سابق آئی پی ایس سکندر حیات، ابوذر حسین خان منتخب ہوگئے ہیں۔ چار افراد ورکنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ 

 دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس تلونت سنگھ کی نگرانی میں یہ الیکشن ہوئے۔ اسلامک سینٹر اس قدر اہم کیوں ہے کہ اس سے قبل کیرل کے گورنر عارف محمد خان اور سلمان خورشید پہلے بھی صدارت کا الیکشن لڑچکے ہیں ۔ سراج الدین قریشی انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کا الیکشن چار مرتبہ جیت چکے ہیں۔ وہ 20 سال تک صدر رہے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے حامی اور مخالف بھی ہو ں گے۔ 2024کے الیکشن کے اس قدر دلچسپ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ 15جون 2023کو سراج الدین قریشی 75سال کے ہوگئے ۔ سینٹر کے آئین کے مطابق 75سال سے زیادہ عمر کا کوئی شخص سینٹر کا صدر نہیں ہوسکتا ہے۔ سراج الدین قریشی ایکسٹرا آرڈینری جنرل باڈی کی میٹنگ کرکے عمر کی حد میں ترمیم کرنا چاہیے تھے لیکن ان کے خود کے گروپ کے لوگ ہائی کورٹ چلے گئے۔ 

جہاں قانونی جدوجہد کے بعد جسٹس تلونت سنگھ کو آئی آئی سی سی کا آبزرور اور ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ اس طرح انتظامیہ کے ممبران کے پاس اختیار ختم ہو گئے تھے۔ بعد ازاں جسٹس تلونت سنگھ نے مالیاتی اور فارنسک کا آڈٹ کرایا۔ انہوںنے نئی ووٹرلسٹ تیار کی اور سینٹر میں ہورہی بے ضابطگیوں کو درست کرنے کی کوشش۔ اس قانونی جدوجہد سے کچھ اراکین کو مایوسی ہوئی اور ادارے کے وقار کو نقصان پہنچا ۔ آخر کار دہلی ہائی کورٹ کی ڈبل بنچ نے 14اگست 2024تک سینٹر کے الیکشن کرائے جانے کی ہدایت دی۔ سینٹر کے انتخابات کے بعد نئی انتظامیہ کو نئی نو منتخب ٹیم کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ۔ جسٹس تلونت کی مدت کار ختم ہوچکی ہے۔ 

آئی آئی سی سی کے میمورنڈم آف ایسوسی ایشن کے آرٹیکل 3(سی)کے مطابق ہندوستان میں مسلم فرقہ کی اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور سماجی ترویج کی کوشش سینٹر کی ذمہ داری ہے۔ تاکہ مسلمان دیگر ہم وطن لوگوں کے ساتھ روز مرہ کی زندگی میں حصہ داری کو بڑھائیں۔ 

اس ادارے کو عالمی سطح پر اہم مقام حاصل ہے ۔ یہ ادارہ مسلمانوں کو زیادہ بااختیار بنانے میں رول ادا کرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب آر ایس ایس سینٹر میں اپنی موجودگی کا احساس کراسکے گی۔ 

صدر کے عہدے کے لیے کئی امیدوار اپنی قسمت آزما رہے تھے ۔ اصل مقابلہ کانگریس لیڈر سلمان خورشید اور آر ایس ایس کے مسلم راشٹر یہ منچ کے قومی کنوینر اور ماہر کینسر کے ڈاکٹر ماجداحمد تالی کوٹی، ریٹائرڈ آئی آر ایس افسرابرار احمد اور تاجر آصف حبیب کے درمیان تھا۔ ڈاکٹر ماجداحمد تالی کوٹی نے جب امیدوار ہونے کا اعلان کیا تو بہت سے اراکین میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ کچھ ممبران میں اندیشہ پیدا ہوا کہ آئی آئی سی سی میں آر ایس ایس کے عمل دخل سے مرکز کے بنیادی مقاصد اور نظریات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اسلامک کلچرل سینٹر جو کہ لودھی روڈ پر واقع ہے، اس کی گوررننگ باڈی کا ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتا ہے۔ گزشتہ چار میقاتوں سے صدر کے عہدے پر فائز رہے سراج الدین قریشی نے ڈاکٹر تالی کوٹی کی حمایت کردی تھی ۔ 

سراج الدین قریشی بورڈ آف ٹرسٹیز کے عہدے کا الیکشن جیت گئے ۔ انہوںنے 2019کے الیکشن میں گورنر کیرل عارف محمد خان کو بھی شکست دی تھی۔ اسلامک سینٹر کے میمورنڈم آف آرٹیکلز (ایم او اے)کے مطابق 75سال کی عمر سے زیادہ کا کوئی بھی شخص صدر نہیں رہ سکتا ہے۔ کئی ارکان کی رائے ہے کہ اس کا اثر سلمان خورشد کی مدت کار پر بھی پڑے گا۔ کیونکہ تین سال بعد وہ 75سال کی حد کو عبور کرلیں گے اور اس وقت دوبارہ انتخابات کرانے پڑیں گے، محسنہ قدوائی ، ڈاکٹر کرن سنگھ ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد، طارق انور، شاہد صدیقی کے علاوہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی سطح کے لوگ، سول سرونٹس دانشور ، تجارت پیشہ مرکز کے ممبران ہیں۔ مرکز کے ممبران کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے۔ بہت سے ممبران تاحیات ہیں۔ ہر سال اسلامک سینٹر کی ممبر شپ کی فیس جمع نہ کرانے والے کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

آر ایس ایس سربراہ کے ایس سدرشن نے مسلم راشٹریہ منچ قائم کیا تھا ۔ ڈاکٹر اندریش کمار اس کے سرپرست ہیں ۔ راشٹریہ منچ آر ایس ایس کے عالمی نقطہ نظر کی غمازی کرتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں سیاست کے پروفیسر شمس الاسلام نے کہاہے کہ آر ایس ایس نے باضابطہ طور پر 43تنظیمیں بنائی ہیں ۔ یہ بات انہوںنے ایک کتاب میں کہی ہیں۔ 1999 میں شائع ہوئی تھی، حالانکہ بعد میں انہوںنے اس کتاب کو واپس لے لیا ، جو ڈاکٹر اندریش کمارنے مسلم راشٹریہ منچ میں دس بارہ مسلم دانشوروں کو شامل کیا جن میں سے کئی کو پروفیسر ، وائس چانسلر اور گورنر بتایا گیا۔ ایم آر ایم سے وابستہ ڈاکٹر گلریز شیخ کا کہنا ہے کہ مسلم راشٹر یہ منچ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے یہ درست ہے کہ آر ایم ایم ۔ آر ایس ایس کے نظریہ سے وابستہ ہے لیکن یہ منچ ہمیشہ مسلمانوںکو مین اسٹریم میںلانے کی وکالت کرتا ہے۔ آصف جنید کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے یہیں پر اسلامک سینٹر کا کردار اہم ہوجاتا ہے اسلامک کلچرل سینٹر کو سیاست کا اڈا نہ بنا یا جائے۔ کچھ سیاسی گرو اور خاص نظریات کے حامل ادارے سینٹر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر تمام مذاہب کا مساوی طور پر احترام کرتا ہے اور مختلف فرقوں کے درمیان اخوت اور ربط مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمی اور ثقافت کو فروغ دینے میں سرگرم ہے۔ 

اسلامک سینٹر کا قیام: جسٹس ہدایت اللہ انصاری اور بدرالدین طیب جی جیسے دانشوروں کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔ اندرا گاندھی نے 24اگست 1984کو اسلامک کلچرل سینٹر کابنیادرکھا تھا۔ 12جون 2006کو 16 کروڑ روپے سے بنائے گئے اسلامک سینٹر کا افتتاح اس وقت کی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے کیا تھا۔ ہندوستان آبادی کے اعتبار سے دوسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔ اس ناطے اسلامک سینٹر ایک اہم ادارہ ہے ۔ ہندوستان کی سرکار نے اس زمانے میں نائب صدر جسٹس ایم ہدایت انصاری کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ 

راجدھانی دہلی میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے قیام کا خیال 14ویں صدی ہجری کی تقریبات کے دوران آیا۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنچانے کے لیے کچھ مشہور شخصیات نے اہم رول ادا کیا تھا۔ اس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کچھ نامور طلبا بھی شامل تھے۔ اپریل 1981میں آئی آئی سی سی کے نام سے ایک سوسائٹی کا رجسٹریشن ہوا۔ 

 سوسائٹی یعنی انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی میمورنڈم آف ایسوسی ایشن یعنی انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے اصل دستخط کنندگان حکیم عبدالحمید – پہلے صدر، مفتی عتیق الرحمن – پہلے نائب صدر، بدرالدین طیب جی، آئی سی ایس – ڈائریکٹر سید ایس۔ شفیع جوائنٹ ڈائریکٹر، چودھری محمد عارف – سکریٹری، ایم ڈبلیو کے یوسف زئی – خزانچی، بیگم عابدہ احمد ممبرتھیں۔ ایک اہم ادارے کے طور پر، حکومت ہند نے انڈیا اسلامک سینٹر کو تقریباً 8000 میٹر زمین الاٹ کی۔ اب سلمان خورشید اس ادارے کے سربراہ ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے الفاظ میں، ’’ اختلاف رائے ہو سکتا ہے، لیکن دل میں کدورت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ سلمان خورشید تجربہ کارسیاست داں ہیں۔ وہ صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے نواسے ہیں اور ان کے والد خورشید عالم خان صاحب نے بھی اپنی پوری زندگی سیاست کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ سلمان خورشید سے بہت توقعات ہیں کہ وہ تمام مکاتب کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور آئی آئی سی سی کو بین الاقوامی شہرت اور شناخت دلائیں گے۔ سلمان خورشید کو بہت بہت مبارک ہو! سینٹ اسٹیفن کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ سلمان خورشید کی قابلیت، نرمی اور ذہانت سے ہر کوئی مستفید ہو گا۔ ویسے بھی ہندوستانی سماج میں ’ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، ہم سب بھائی بھائی ہیں‘ سب میں ہم آہنگی ہے۔ سلمان خورشید ماضی میں بہت سے چیلنجنگ کام کامیابی سے کر چکے ہیں۔ وہ اس با رصدر کی حیثیت سے سب کو ساتھ لے کر چلیں گے ایسی امید کی جاتی ہے۔ 

مضمون نگار سالیسٹر ، انسانی حقوق رضاکار سیاسی تجزیہ نگار ہیں اور دور درشن سے وابستہ رہی ہیں۔ 

singhnofficial@gmail.com

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!
× Click to Whatsapp