दिल्ली NCR

(پریس کانفرنس (بمقام پریس کلب آف انڈیا دہلی

بتاریخ 28؍جولائی 2024ء بوقت ۱ بجےدن

نئی دہلی 28؍جولائی برسوں سے ملک کے عازمین حج کو مختلف طریقوں سے سہولت دلانے کےلیے کوشاں اتر پردیش حج کمیٹی سے دوبار منتخب حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے وزارت حج اور حکومت ہند کےمایوس کن اور آمرانہ رویہ سے مجبور ہوکر ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں سے اس سوسالہ ادارہ حج کمیٹی آف انڈیا کی سالمیت کےلیےآج عوامی سطح سے مددکرنے کےلیے مؤدبانہ اپیل کی ہے۔

مسٹراعظمی نے آج یہاں پرہجوم پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت مجبور ہوکر آج ہم یہاں آپ لوگوں کے بیچ آئے ہیں اور آج آپ کو اس سلسلے میں تفصیلی طور سے بتانا چاہتے ہیں کہ کس طرح سے اس ادارہ پر ناجائز قبضہ کرکے مختلف طریقوں سے حج کمیٹی آف انڈیا کااربوں روپیوں کا فنڈ جوملک کے مسلمانوں کی امانت ہے اسے خرد برد کیا گیا اور قدیمی روایات اورحج ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کے باعث مسلسل حج انتظامات میں خرابیاں پیدا ہوئیں اور بدانتظامی کے سبب حج کافی مہنگا اور پریشان کن بھی ہوا۔

انھوں نے بتایاکہ 2016 میں یہ محکمہ وزارت خارجہ سے پی ایم او کے ایک ہدایت کے ذریعہ اقلیتی فلاح وبہبود کے محکمہ میں منتقل کیا گیا اس وقت حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ یہ کام ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں ادھورا رہ گیا تھا اس لیے اس کو پورا کیاگیا جبکہ سچائی سے آپ لوگوں کا واقف ہونا ضروری ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت 2008 یا 9 میں ایک میمورنڈم اس وقت کے اقلیتی محکمہ کے وزیر جو راجیہ سبھا کے رکن تھے ان کی طرف سے کچھ مسلم ممبران پارلیمنٹ سے دستخط کراکے دیاگیا تھا اس کےلیے ڈاکٹر صاحب نے ایک بہت اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل کردی اس کمیٹی کے سامنے بہت سے لوگوں نے ملاقات کرکے ساری باتیں رکھیں 1959 کے ایکٹ میں بھی یہ محکمہ وزارت خارجہ میں تھا 2002 میں بھی یہ وزارت خارجہ میں ہےاور حج غیرملک کاسفر ہے اس لیے حج اسی محکمہ میں رہنا چاہیے اور نوڈل ایجنسی وزارت خارجہ ہی بہتر ہے اس کے بعد یہ سارا معاملہ ٹھنڈے بستہ میں چلاگیا اور 2014 میں این ڈی اے حکومت آنے کے بعد جن لوگوں کے اس پر دستخط تھے ان لوگوں نے اس کی پیروی کرکے اسے ٹرانسفر کرا یا اور اس کے بعد سے مستقل طور سے دھیرے دھیرے سفر حج مہنگا اور پریشان کن ہوا اوراس ادارہ کوقبضہ کرنا سازش کا ایک حصہ تھا کیوں کہ شاید وزارت خارجہ کے افسران جو روایت اور رول کے مطابق کام کرتے تھے انھیں اس طرح استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مسٹراعظمی نے کہا کہ میرا مقصد کسی حکومت کی تنقید نہیں میں 1998 سے کسی سیاسی جماعت کا ممبر نہیں ہوں اور صرف حج شعبہ میں کام کیاہے اور حج 2002 بھی جوبنایاگیا اس میں ہم نے اور ہمارے رفقا نے 5 برس بہت شدت کی تحریک چلائی تھی جس میں دہلی میں دوبار بار ہزاروں مسلمانوں کا مظاہرہ ،آنجہانی اٹل جی سے ملاقات ،پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈران سے حج ایکٹ بنانے کےلیےاجتماعی سوالات وغیرہ شامل رہے ۔

مسٹر اعظمی نے کہا اس محکمہ کو اقلیتی فلاح وبہبود میں ٹرانسفر ہونے کے بعدہم نے 8 نومبر 2016 کو جنتر منترپر سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں مظاہرہ اور دھرنا کرکےحج محکمہ کو واپس وزارت خارجہ میں منتقل کرنے کا سخت مطالبہ کیا تھا بد قسمتی سے اسی دن نوٹ بندی ہوگئی اور ہمارے ہی نہیں ملک کے بہت سے معاملات دب کررہ گئے۔

مسٹر اعظمی نے کہا کہ 2016 میں حج کمیٹی آف انڈیا بنائی گئی تھی اس میں وزیر اعظم کے ذریعہ 3 ممبران مسلم قانون داں (عالم مفتی)جو نامزد ہوتے تھے اس زمرے میں 3 برسراقتدار پارٹی کے ورکروں کونامزد کیا گیاجس میں شیعہ عالم دین کے زمرہ میں جسےنام زد کیاگیا وہ شیعہ مسلک سے تھے ہی نہیں اور وہ کمیٹی جس کی مدت 20جون 2019 تھی اسی کمیٹی کو دوبار چھ چھ ماہ کی توسیع دی گئی جو کہ روایت میں موجود نہیں ہے۔ساتھ ہی ساتھ اسی کمیٹی میں ایکٹ اورضابطہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حج کمیٹی کا کار گزار صدر بھی بنایا گیا اور اسی کمیٹی کےذریعہ وزیر وزارت اور افسران اور کمیٹی کےتال میل اور مستقل سازش کرکے حج کمیٹی آف انڈیا کے پیسوں کا غلط استعمال ہوا ۔ مسٹر اعظمی نے تین چار چیزیں پیش کیں جس میں انھوں نے کہا کہ

ممبئی کھار گھر میں حج کمیٹی آف انڈیا کے تقریبا 18 کڑوڑ روپیےسے کیمپ دفترجس کا بورڈ آ ج بھی وہاں لگا ہواہےزمین خریدی گئی،اس کی چہار دیواری بھی کرلی گئی، اس کا نقشہ بھی بن گیا جبکہ حج ایکٹ کےمطابق یہ کیمپ آفس ممبئی میں ہوئی نہیں سکتا ہے کیوں کہ ممبئی میں ۱۹ منزلہ عمارت صدردفتر کے لیے موجود ہے۔

دوسرا معاملہ یہ ہے کہ 19 اسٹوری حج ہاؤس میں تزئین کاری اور کچھ کمروں کی مرمت کے نام پر بھی کڑوڑوں روپیے خرچ کیے گئے اور خاص بات یہ رہی کہ جہاں جہاں مرمت ہوئی 10 جگہ موجودہ وزیر کے نام کا کافی مہنگاپتھر لگایا گیاجبکہ 1959 سے آج تک بہت بار حج ہاؤس میں مرمت اور تزئین کاری کا کام ہوا لیکن آج تک کسی وزیر کےنام کی تختی نہیں لگی دوسری جگہ تعمیر کرانا اور حج ہاؤس میں اس طرح کا عمل کرانا یہ تو اعلیٰ سطحی شفافیت سے جانچ کرانے کے بعد ہی پتا چلے گا۔

مسٹراعظمی نے بتایا کہ حج 2022 کے حج میں ملک کے سبھی عازمین کو کمیٹی کے ذریعہ اٹیچی بیگ چادر وغیرہ لینا لازمی کردیاگیا تھا ان چیزوں کو حاصل کرنے کےلیے ملک بھر کے عازمین کو بہت پریشان ہونا پڑااس کام میں بھی بڑی بد عنوانی ہوئی ہےجو جانچ کا موضوع ہےاس کے بعد کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔

مسٹر اعظمی نے کہا کہ مجبور ہوکر اکتوبر 2021 میں ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا جس میں اس وقت ملک کی بیشتر اسٹیٹ حج کمیٹیاں بھی نہیں تھی اور مرکزی حج کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا اس بیچ وزارت نے بڑی ہی عیاری سے ایک اپریل 2022 کو ایک 7 رکنی ممبران کا نوٹیفکشن جاری کیا اور محمد فیضی کیرلا اسٹیٹ کمیٹی کے نمائندہ کا ۲۱ اپریل کو ہوا۔اس میں دو ممبران جو مسلم قانون دان کے زمرے میں لینا تھا اس میں پارٹی کے عہدہ دار جو مسلم قانون دان نہیں ہیں انھیں لیا گیا اور ایک شیعہ عالم دین کے زمرے میں ایسے شخص کو لیا جو سرے سے شیعہ ہے ہی نہیں تیسرے ممبر اس میں ظفرالاسلام راجیہ سبھا کوٹے سے انھیں لیاگیا جبکہ وہ دسمبر میں اسٹیٹ حج کمیٹی یوپی میں پہلے سے راجیہ سبھا کوٹہ سے ممبر موجود تھے اس طرح غیر قانونی کمیٹی سپریم کورٹ اور عوام کو گمراہ کرنے کےلیے بنائی گئی جبکہ 23 ممبران کی کمیٹی میں 19 ممبران کو ووٹ دینے اورالیکشن لڑنے کاحق ہے مرکزی حکومت کے بڑے افسران 4 ممبر ہوتے ہیں جنھیں ووٹ دینے کا اختیار نہیں ہوتا 27اپریل 2022 کو چیئرمین اور وائس چیئرمین کا الیکشن کرادیا گیا جو ہرطرح سے غیر قانونی ہے جسے رد کیا جانا چاہیے ۔

مسٹراعظمی نے زور دےکر یہ بات کہی کہ وزیر اعظم کے ذریعہ 3 مسلم قانون داں کا جو نام نیشن کیاجائے اس میں (مفتی عالم) کی ڈگری کا حلف نامہ ضرور لیاجاناچاہیے کیوں کہ اس زمرہ میں اس حکومت کے ذریعہ نوٹیفیکشن دوکمیٹیوں میں مستقل ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

مسٹر اعظمی نے کہا کہ 27 مارچ 2023 کو اس مقدمہ کی دسویں سماعت کےبعد چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ 3 ماہ کے اندر حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل کرلی جائے 6 ماہ تک جب اس کی تشکیل نہیں ہوئی تو پھر مجبور ہوکر توہین عدالت کی عرضی اکتوبر 2024 میں داخل کی جس میں کئی بار سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے یہ سخت ہدایت دی تھی کہ 15 اپریل 2024 تک حکومت حلف نامہ داخل کرے کہ ہمارے فیصلہ پر اس نے عمل کیوں نہیں کیا۔حلف نامہ مرکزی حکومت نے 12 اپریل 2024 کو داخل کیا اس میں بہت ہی حیرت انگیز چیزیں سامنے آئیں حلف نامہ میں یہ لکھا گیا کہ کئی بار محکمہ کے وزیر نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کو خط لکھا کہ مسلم ممبران کا نام بھیجا جائے مگر انھوں نے نہیں بھیجا اس خط کی کاپی بھی لگائی گئی یہی معاملہ راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیش دھنکڑ کےیہاں سے بھی ہوا کہ کئی بار خط لکھنے کے بعد بھی انھوں نے نام نہیں بھیجا وزارت کے سکریٹری سری نواسن نے بھی 5 مئی 2024 کو چیف الیکشن کمیشن راجو کمار کو خط لکھ کر حج کمیٹی کا الیکشن کرائے جانے کی مانگ کی تھی اس کی کاپی بھی حلف نامہ میں لگائی گئی مگر یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اس ادارہ پر قبضہ جمائے رکھنے کےلیے کس کس طرح کی سازشیں ہورہی ہیں ۔

مسٹراعظمی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر عمل در آمد اگر ہوا تو پھر انھیں لوگوں سے نام کو مانگا جائے گا اور یہ لوگ کیا کریں گے اس کا کچھ پتا نہیں اس لیے ہم نے مجبور ہوکر ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں سے یہ اپیل کیا ہے کہ لوک سبھا میں لیڈرآف اپوزیشن راہل گاندھی اکھلیش یادو ابھیشیک بنرجی، ٹی آر بالو ،ڈاکٹر نیسا بھارتی اور دیگر لیڈران لوک سبھا سے یہ معلوم کریں کہ آپ قانون بنانے والے ادارہ کے صدر ہیں اور آپ کی طرف سے ایسا رویہ اختیار کیوں کیاگیا جس سےحج ایکٹ2002 کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

 مسٹراعظمی نے راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیش دھنکڑ سے بھی لیڈرآف اپوزیشن ملکہ ارجن کھڑگے شرد پوار ،رام جی لال سمن ،سنجے راوت، سنجےسنگھ ودیگر ممبران بھی اس بارے میں جواب طلب کریں کہ حج ایکٹ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کیوں ہوئی ۔

مسٹر اعظمی نے کہا کہ 29 اپریل 2024 کا فیصلہ بھی وزارت ٹھنڈے بستہ میں ڈال رہی ہے کیوں کہ ۳ ماہ گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک 6 زون اور پارلیمنٹ سے تین ممبران و دیگر ممبران کی کمیٹی نہیں بنائی گئی ہے۔ اس سلسلے میں22اپریل 2024 کو کابینہ سکریٹری اور وزارت کے سکریٹری شری نواسن کو میمورنڈم بھیجا تھا اور پھر 22جون 2024 کو وزیر اعظم نریندر مودی اور اقلیتی فلاح وبہبود کے وزیر کرن ریجیو کو ایک عرضداشت 29 اپریل کے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کو پوری طرح لاگو کرنے کےلیے بھیجی تھی مگر اب تک اس سلسلے میں حکومت کی سطح سے کچھ نہیں ہورہاہے اور مجبور ہوکر ہم نے اپوزیشن رہنماؤں سے مدد مانگی ہے اور ایک سوال کے جواب میں مسٹر اعظمی نے کہا کہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں سے ہم نے وقت بھی مانگا ہے اور کچھ لوگوں سے ملاقات کرکے میمورنڈم بھی دیا ہے مسٹر اعظمی نے آخیر میں سبھی صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور پرعزم انداز میں کہا کہ ہم اپنے رفقا کی مدد اور دعاؤں سے اپنا ہوش حواس قائم رہنے تک اس ادارہ کی حفاظت سالمیت اور عازمین کو سہولت دلانے کے لیے ہرسطح پہ جدوجہد کرتے رہیں گے ۔

حافظ نوشاد احمد اعظمی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Translate »
error: Content is protected !!
× Click to Whatsapp